مقاطعہ بنی ہاشم کیا ہے؟ جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں۔


مقاطعہ بنی ہاشم

(سلسلہ وار)

جب قریش کی سفارت حبشہ سے ناکام واپس ہوئ اور یہ معلوم ہوا کہ نجاشی نے حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کا بہت اکرام کیا۔ ادھر حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ اسلام لے آۓ' جس سے کافروں کا زور ٹوٹ گیا اور پھر یہ کہ روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور کوئ حربہ دینِ حق کو دبانے میں کارگر نہیں ہوتا۔ تب تمام قبائل قریش نے متفقہ طور پر ایک تحریری معاہدہ لکھا کہ محمد اور بنی ہاشم اور ان کہ تمام حامیوں سے یک لخت تمام تعلقات قطع کر دیۓ جائیں کہ نہ کوئ شخص بنی ہاشم سے نکاح کرے اور نہ ان سے میل جول رکھے' جب تک کہ بنو ہاشم رسول اللہ کو قتل کہ لیے ہمارے حوالے نہ کر دیں۔

اور اسی مضمون کی ایک تحریر لکھ کر اندرونِ کعبہ آویزاں کر دی گئ' منصور بن عکرمہ جس نے اس ظالمانہ اور سفاکانہ معاہدہ کو لکھا' اس کو تو اسی وقت من جانب اللہ اس کی سزا مل گئ کہ اس کی انگلیاں شل ہو گئیں اور ہمیشہ کہ لیے ہاتھ کتابت سے بیکار ہو گیا۔ ابوطالب نے مجبور ہو کرمع خاندان کہ شعبِ ابی طالب میں پناہ لی۔ بنو ہاشم اور بنوالمطلب' مومن اور کفار سب نے آپ کا ساتھ دیا۔ مسلمانوں نے دین کی وجہ سے دیا اور کافروں نے خاندانی اور نسبی تعلق کی وجہ سے۔ بنو ہاشم میں صرف ابولہب قریش کا شریک رہا' تین سال اسی حصار(کہا جاتا ہے کہ اس حصارکی ابتداء 7 نبوی محرم میں ہوئ) میں سخت تکلیف میں گزارے۔ یہاں تک کہ بھوک سے بچوں کے بلبلانے کی آواز باہر سے سنائ دینے لگی۔ سنگ دل سن سن کر خوش ہوتے۔ لیکن جو ان میں سے رحم دل تھے ان کو ناگوار گزرا اور صاف کہا کہ تم کو نظر نہیں آتا کہ منصور بن عکرمہ پر کیا آفت آئ۔

اس حصار میں مسلمانوں نے کیکر کے پتے کھا کر زندگی بسر کی۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے فرماتے ہیں کہ میں بھوکا تھا' اتفاق سے شب میں میرا پیر کسی تر چیز پر پڑا۔ فوراً زبان پر رکھ کر نگل گیا' اب تک معلوم نہیں کہ وہ کیا شے تھی۔ سعد بن ابی وقاص اپنا ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شب کو پیشاب کے لیے نکلا' راستہ میں ایک اونٹ کی کھال کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ لگا' پانی سے دھو کر اس کو جلایا اور کوٹ چھان کر اس کا سفوف بنایا اور پانی سے اس کو پی لیا' تین راتیں اسی سہارے پر بسر کیں' نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب کوئ تجارتی قافلہ مکہ آتا تو ابولہب اٹھتا اور یہ اعلان کرتا پھر جاتا کہ کوئ تاجر اصحابِ محمد کو کوئ چیز عام نرخوں پر فروخت نہ کرے بلکہ ان سے اضعافاً مضاعفہ قیمت لے اور اگر کوئ نقصان یا خسارہ ہو تو اس کا میں ذمہ دار ہوں۔ صحابہ خریدنے کہ لیے آتے۔ مگر نرخ کی گرانی کا یہ عالم دیکھ کر خالی ہاتھ واپس ہو جاتے' الغرض ایک طرف اپنی تہی دستی اور دشمنوں کی یہ چیرہ دستی تھی اور دوسری طرف بچوں کا بھوک سے تڑپنا اور بلبلانا تھا۔


حوالہ جات: ابنِ سعد، ابنِ سیدالناس، ابنِ ہشام، ابنِ قیم، ابنِ حجر۔


 (جاری ہے)

Comments