﷽
عمر بن الخطابؓ کا قبولِ اسلام
(سلسلہ وار)
(آخری قسط)
اور عمر سے مخاطب ہو
کر فرمایا اے عمر کیا تو اس وقت تک باز نہ آۓ گا جب تک خداۓ عزوجل تجھ پر
کوئ رسوا کن عزاب نازل نہ فرماۓ۔ عمر نے عرض کیا یارسول اللہ اسی لیے حاضر ہوا ہوں
کہ ایمان لاؤں اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جو کچھ اللہ کے پاس سے نازل ہوا۔
"اشھد ان لاالہ الا اللہ وانک رسول اللہ"۔ رسول اللہﷺ نے فرط مسرت سے
بآواز بلند تکبیر کہی' جس سے تمام اہلِ دار نے پہچان لیا کہ مسلمان ہو گۓ۔
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب عمرمسلمان ہوۓ
تو جبرئیل امین نازل ہوۓ اور یہ فرمایا اے محمد تمام اہلِ آسمان حضرت عمر کے
اسلام سے مسرور اور
خوش ہوۓ۔
حضرت عمرؓ اسلام لاۓ
اور اسی وقت سے دین کی عزت اور اسلام کا ظہور اور غلبہ شروع ہو گیا۔ علی الاعلان حرم
میں نماز پڑھنے لگے۔ علانیہ طور پر اسلام کی دعوت و تبلیغ شروع ہو گئ۔ اسی روز سے
حق اور باطل کا فرق واضح اور ظاہر ہوا اور رسول اللہﷺ نے آپ کا نام فاروق رکھا۔
حضرت عمر جب اسلام لے
آۓ تو یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنے اسلام کی اطلاع ایسے شخص کو دوں کہ جو بات کے
مشہور کرنے میں خوب ماہر ہو' تاکہ سب کو میرے اسلام کی خبر ہو جاۓ' چنانچہ میں
جمیل بن معمر کہ پاس گیا جو اس بات میں مشہور تھا اور کہا اے جمیل تجھ کو معلوم
بھی ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور محمدﷺ کے دین میں داخل ہو گیا ہوں۔ جمیل یہ
بات سنتے ہی اسی حالت میں اپنی چادرکھینچتا ہوا مسجد حرام کی طرف بھاگا جہاں
سردارانِ قریش جمع تھے' وہاں پہنچ کر بآوازِ بلند یہ کہا اے لوگو عمرصابی ہو گیا
ہے۔ عمرؓ فرماتے ہیں میں بھی پیچھے پیچھے پہنچا اور کہا یہ غلط کہتا ہے میں صابی
نہیں ہوا میں تو اسلام لایا ہوں اور یہ گواہی دی ہے کہ اللہ تعالی کہ سوا کوئ
معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہ سننا تھا کہ لوگ عمر پرٹوٹ
پڑے اور مارنا شروع کیا' اسی میں دن چڑھ گیا۔ اتفاق سے عاص بن وائل سہمی ادھر
آنکلے' عاص نے دریافت کیا کہ کیا واقعہ ہے' لوگوں نے کہا عمر صابی ہو گیا ہے' عاص
نے کہا تو پھر کیا ہوا ایک شخص نے اپنے لیے ایک امر(دین) کو اختیار کر لیا ہے' پھر
تم کیوں مزاحم ہوتے ہو' کیا تمہارا گمان ہے کہ بنی عدی اپنے آدمی(یعنی حضرت عمرؓ)
کو یوں ہی چھوڑ دیں گے' جاؤ میں نے عمر کو پناہ دی ہے' عاص کا پناہ دینا تھا کہ
تمام مجمع منتشر ہو گیا۔
حوالہ جات: سیرۃابن
ہشام، عیون الاثر، مسند بزار، معجم طبرانی، دارقطنی، دلائل
بیہقی، دلائل ابی نعیم،
زرقانی، ابن سعد، ابن کثیر، بخاری۔
پچھلی قسط کو پڑھنے کے لۓ نیچے دۓ گۓ لنک کو کاپی کر کے URL میں
کھولیں۔
http://bitblogger7.blogspot.com/2017/08/2-httpbitblogger7.html
کھولیں۔
http://bitblogger7.blogspot.com/2017/08/2-httpbitblogger7.html
Comments
Post a Comment