﷽
عمر بن الخطابؓ کا قبولِ اسلام
(سلسلہ وار)
حضرت عمرؓ
کے اسلام لانے کا اصلی اور حقیقی سبب تو
رسول اللہﷺ کی دعا ہے۔ اول آپ نے یہ دعا فرمائ کہ اے اللّہ ( یعنی در پردہ) ابوجہل
اور عمر بن الخطاب میں سے جو تیرے نزدیک
زیادہ محبوب ہو' اسی سے اسلام کو عزت دے۔ بعدازاں آپ نے خاص حضرت عمرؓ کے لۓ یہ دعا کی' حدیثِ مبارک کا ترجمہ:
"اے اللّہ خاص عمر بن الخطاب سے اسلام کو
قوت دے"۔
غرض یہ کہ حضرت عمر کے اسلام کا اصلی اور حقیقی
سبب تو رسول اللّہﷺ کی دعاۓ جاذبانہ ہے' باقی سبب ظاہری یہ ہے کہ جو حضرت عمرؓ سے
منقول ہے' فرماتے ہیں کہ میں ابتداء میں رسول اللّہﷺ کا سخت مخالف اور دینِ اسلام سے سخت
متنفراور بیزار تھا۔
ابوجہل نے یہ اعلان کیا کہ جو شخص حضرت محمد(ﷺ)
کوقتل کر ڈالے اس کے لۓ میں سو اونٹ کا کفیل اور ضامن ہوں' عمر کہتے ہیں کہ میں نے
بلمشافہ ابوجہل سے دریافت کیا کہ تمہاری جانب سے کیا یہ کفالت اور ضمانت صحیح ہے'
ابوجہل نے کہا ہاں۔ عمر کہتے ہیں کہ میں آپ کے قتل کے ارادہ سے تلوار لے کر روانہ
ہوا' راستہ میں ایک بچھڑا نظر پڑا' جسے لوگ ذبح کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ میں بھی
دیکھنے کہ لیے کھڑا ہو گیا' یکا یک دیکھتا کیا ہوں کہ کوئ پکارنے والا بچھڑے کہ پیٹ
میں سے پکار کر یہ کہ رہا ہے'
"اے آلِ ذریح ایک کامیاب امر ہے' ایک مرد
ہے جو فصیح زبان کے ساتھ چیخ رہا ہے لوگوں کو شہادۃ ان لااِلہ الا اللّہُ وان محمدارسول اللہ کی طرف بلا رہا ہے"۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں
کہ یہ آواز سنتے ہی معاً میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مجھ کو ہی یہ آواز دی جارہی
ہے اور میں ہی اس آواز کا مخاطب ہوں۔
لیکن عمر پھر بھی
اپنے ارادہ سے باز نہ آۓ اور آگے بڑھے' کچھ قدم چل کر نعیم بن عبداللّہ نحام ملے
اور پوچھا کہ اے عمر اس دوپہر میں کس ارادہ سے جا رہے ہو۔ عمر نے کہا محمد(ﷺ) کے
قتل کا ارادہ ہے۔ نعیم نے کہا محمد(ﷺ) کو قتل کر کے بنی ہاشم اور بنی زہرہ سے کس
طرح بچ سکو گے۔ عمر نے کہا میں گمان کرتا ہوں کہ تو صابی (بد دین) ہو گیا ہے اور
اپنا آبائ مذہب چھوڑ بیٹھا ہے۔ نعیم نے کہا تم مجھ سے کیا کہتے ہو' تم کو معلوم
نہیں کہ تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب اور تمہارے بہنوئ سعید بن زید دونوں صابی ہو چکے
ہیں اور تمہارا دین چھوڑ کر اسلام قبول کر چکے ہیں۔
حوالہ جات: احمد بن حنبل، ترمزی، سننِ ابنِ ماجہ، مستدرک حاکم، بخاری
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment